پسنی ترقیاتی اسکیمات یا منظم بندر بانٹ؟ ٹینڈر سے پہلے مکمل کیے گئے کام شفافیت پر سنگین سوالات چھوڑ گئے۔ لالا سیلانی
پسنی ( روزنامہ ایگل حب بلوچستان ) بلوچستان کا ساحلی شہر پسنی ایک عرصے سے ترقیاتی محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ بنیادی سہولیات، خستہ حال اسکولز، غیر فعال لائبریری، اور لاوارث قبرستان — سب کچھ ریاستی توجہ کا منتظر رہا ہے۔ ایسے میں پسنی کے لیے اچانک 25 ترقیاتی اسکیمات کی منظوری اور فنڈز کا اجرا ایک "خوشگوار حیرت” سے کم نہ تھا۔ لیکن حیرت اس وقت شک میں بدل گئی جب انہی اسکیمات میں وہ کام شامل نکلے، جو ٹینڈر سے پہلے ہی مکمل کیے جا چکے تھے۔
یہ محض اتفاق ہے یا پیشگی منصوبہ بندی؟
ذرائع اور عینی شاہدین کے مطابق:
پسنی عیدگاہ میں کچھ روز قبل رنگ و روغن اور مرمت کا کام کروایا گیا۔ بتایا گیا کہ یہ کام ذاتی خرچے پر، عوامی خدمت کے جذبے سے کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح پسنی کے قبرستان میں کیکر کے درختوں کی کٹائی اور صفائی کی گئی، جسے مقامی کمیونٹی نے اپنی مدد آپ کے تحت انجام دیا۔
مگر اب یہی دونوں کام کروڑوں کے سرکاری منصوبوں کی فہرست میں شامل دکھائی دیتے ہیں، جن پر باقاعدہ ٹینڈر اور فنڈ مختص کیا گیا ہے۔
لالا سیلانی کا سخت ردِ عمل
معروف سماجی شخصیت لالا سیلانی نے اس صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"یہ اتفاق نہیں، ایک منظم عمل ہے۔ پہلے کام کروانا، پھر سرکاری اسکیم میں شامل کروانایہ کسی ایک فرد کا کارنامہ نہیں، یہ ملی بھگت ہے۔”
ان کا کہنا ہے کہ "عوام کو اندھیرے میں رکھ کر پہلے کام کروا لیے گئے تاکہ بعد میں اسکیم کے پیسے ‘adjust’ کیے جا سکیں۔”
قانون کیا کہتا ہے؟
پاکستان میں Public Procurement Rules 2004 کے مطابق:
کوئی بھی سرکاری منصوبہ بغیر ٹینڈر اور منظوری کے شروع نہیں کیا جا سکتا۔
ٹینڈر سے پہلے کام کرنا conflict of interest اور بدنیتی کے زمرے میں آتا ہے۔
اگر سرکاری فنڈ ایسے منصوبوں پر جاری کیے جائیں جو پہلے ہی مکمل ہو چکے ہوں، تو یہ فراڈ، مالی بے ضابطگی اور بدعنوانی کے مقدمات کا باعث بن سکتا ہے۔
یعنی اگر یہ ثابت ہو جائے کہ متعلقہ افراد کو ٹینڈر کی پیشگی معلومات تھیں، اور انہوں نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا، تو یہ کیس نیب یا اینٹی کرپشن دائرہ اختیار میں آ سکتا ہے۔
شفافیت کہاں ہے؟ جوابدہی کون کرے گا؟
یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ:
اگر کام پہلے ہی مکمل تھے تو دوبارہ فنڈز جاری کرنے کا جواز کیا ہے؟
یہ "سماجی خدمت” کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش تھی یا ایک سوچی سمجھی اسکیم؟
کیا یہ فنڈز مخصوص افراد کو نوازنے کے لیے جاری کیے گئے؟
لالا سیلانی نے ان سوالات کی روشنی میں فوری انکوائری، اسکیمز کا آڈٹ اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
پسنی کے عوام کو ترقی چاہیے، مگر شفاف، قانونی اور ایماندار ترقی ایسی نہیں جس کے پیچھے پردہ پوشی، بندر بانٹ اور بدعنوانی چھپی ہو۔ اگر واقعی پسنی کو آگے لے جانا ہے تو ان اسکیمات کو شفافیت کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا، ورنہ یہ کروڑوں روپے صرف فائلوں، رنگ و روغن، اور تصویروں تک محدود رہ جائیں گے۔
ترقی سے پہلے دیانت ضروری ہے ورنہ تعمیر کے نام پر تباہی لکھی جائے گی