آج کل لاہور کی کسی بھی سڑک پر گاڑی چلاتے اچانک موڑ مڑتے ہی ایک ٹریفک وارڈن آپ کو روکتا ہے اور کہتا ہے گاڑی سائڈ میں لگائیں آپ کے ای چالان چیک کرنا ہیں۔
بس پھر کیا وہیں وہ فون کے ذریعے شناختی کارڈ اور گاڑی کے نمبر سے آپ کے ای چالان کا سارا کھاتا نکال لیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ آپ اسی وقت ای چالان کی مد میں اپنی نادہندہ رقم ادا کریں، بصورت دیگر گاڑی کے رجسٹریشن یا شناختی کارڈ اور لائسنس ضبط کر لیا جاتا ہے۔
سٹی ٹریفک پولیس کے ترجمان کے مطابق ای چالان ڈیفالٹر گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاون تقریباً تین ہفتوں سے جاری ہے، جب کہ گذشتہ 20 روز میں 49 ہزار کے قریب ای چالان ریکور کیے گئے ہیں۔
سی ٹی او لاہور نے تین ہفتے قبل لاہور بھر میں ای چالان ڈیفالٹر گاڑیوں کی ریکوری کے لیے سپیشل کمپین کا آغاز کیا ہے۔
لاہور ٹریفک پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ ’اس مہم میں ہمیں ہدف یہ دیا گیا ہے کہ جتنے بھی ای چالان ڈیفالٹرز ہیں ان سے جرمانے کی رقم کی وصولی کی جائے۔‘
پل مال پر بھی ایک ناکہ لگایا گیا ہے جہاں دو سے تین ٹریفک وارڈنز موجود ہیں اور آنے جانے والی گاڑیوں کو روکتے اور ان کے ای چالان چیک کرتے ہیں۔
ٹریفک وارڈن نوید نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’ہم گاڑیاں روک کر چالان چیک کرتے اور اس میں کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا بلکہ سرکاری گاڑیوں کو بھی روکا جاتا ہے اور اگر ان کے ای چالان ہیں تو اس گاڑی کا ڈرائیور وہ رقم ادا کرے گا اور ابھی تک ہم مختلف سرکاری اداروں کی گاڑیوں سے 35 لاکھ روپے ریکور کر چکے ہیں۔‘
نوید کا مزید کہنا تھا: ’گاڑی روکنے پر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ای چالان کا کائی پیغام موصول ہوا نہ گھر پر کوئی چالان آیا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اگر کسی نے گاڑی بیچ دی ہے اور خریدنے والے نے اپنے نام منتقل نہیں کی تو ای چالان کا میسج پرانے مالک کو جا رہا ہو گا۔ دوسری وجہ یہ کہ میسج آپ کو پہنچا نہیں لیکن اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے ۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر آن سپاٹ کسی کے پاس ای چالان کا جرمانہ جمع کروانے کے لیے پیسے نہیں تو ان کے گاڑی کے دستاویزات ہم رکھ لیتے ہیں یا ان کا شناختی کارڈ یا لائسنس روک لیا جاتا ہے اور جب وہ چالان جمع کرواتے ہیں اس کے بعد ہمارے دفتر سے آکر وہ اپنے دستاویزات واپس لے سکتے ہیں۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نوید کا کہنا تھا کہ اس میں موٹر سائیکلیں بھی شامل ہیں اور گذشتہ دنوں ہم نے ایک موٹر سایکل پکڑی جس پر ایک لاکھ 54 ہزار روپے کا جرمانہ تھا۔ موٹر سائیکل سوار نے وہیں جرمانہ ادا کیا اور ہم نے انہیں جانے دیا۔‘
نوید نے کہا کہ ’اگر شہری یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف کتنے ای چالان تو وہ سیف سٹی اتھارٹی کی ویب سائٹ پر شناختی کارڈ نمبر یا گاڑی کے چیسسز نمبر کی مدد سے ای چالانز کی تفصیلات حاصل کی جا سکتی ہیں۔‘
مال روڈ پر ہی ہمیں امتیاز حسین بھی ملے جن کی گاڑی کو ٹریفک وارڈنز روکے کھڑے تھے۔ امتیاز نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’میری گاڑی کے 41 ای چالان تھے جس کا ہمیں کوئی علم نہیں تھا۔ نہ کوئی میسج آیا۔ اب ہم نے 16400 روپے جمع کروا دیے ہیں جس کے بعد ہمیں جانے کی اجازت ملی۔‘
سی ٹی او لاہور ڈاکٹر اطہر وحید کے مطابق گذشتہ 20 دنوں میں ٹریفک پولیس لاہور نے 49 ہزار کے قریب ای چالان فائن ریکور کیے ہیں۔
’49000 ای چالانوں کی ریکوری کی مد میں اب تک 3 کروڑ 7 لاکھ 83 ہزار 947 روپے گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کروائے جا چکے ہیں۔‘
سی ٹی او کے مطابق سرکاری محکموں کی ای چالان ڈیفالٹر گاڑیوں سے بھی فائن ریکوری کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’سیف سٹی ڈیٹا سے منسلک ہماری ٹیمیں ڈیفالٹر گاڑی کا پتہ لگا کر فوری کارروائی کرتے ہوئے فائن ریکوری کروا رہی ہیں۔‘