چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اسلام آباد کی کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر انتظام ڈاگ شیلٹر میں کتوں کو اذیت دینے اور مارنے کے الزامات عائد کیے گئے۔
ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ سی ڈی اے نے پچھلے چند برسوں میں سڑکوں سے ہزاروں آوارہ کتوں کو پکڑ کر سپے/نیوٹر کرنے کے بہانے تنگ و تاریک پنجروں میں رکھا، انہیں خوراک اور طبی امداد سے محروم رکھا اور وہ بیماریوں و کیڑوں (ٹکس) کے انفیکشن کے باعث اذیت ناک موت کا شکار ہوئے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے سی ڈی اے سے رابطہ کیا اور اسلام آباد میں واقع شیلٹر کا دورہ کیا۔
ادارے کی ڈائریکٹر میونسپلٹی انعم فاطمہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ متعلقہ نگران افسر کو غفلت برتنے پر معطل کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’عید کے دنوں میں ٹکس کتوں کو زیادہ پڑ گئے تھے۔ ہفتے میں تین مرتبہ بارانی یونیورسٹی کے ویٹرنری ڈاکٹر پناہ گاہ کا دورہ کرتے ہیں اور ٹکس وغیرہ کی دوا اور شیمپو مہیا کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سی ڈی اے کے پاس یہ پناہ گاہ چلانے کے مکمل مالی وسائل نہیں اور جانوروں کے لیے کھانا مختلف اداروں کی سماجی ذمہ داری (CSR) کے تحت فراہم کیا جاتا ہے۔
مرکز کے انچارج رضوان سرور نے بتایا کہ شیلٹر میں اس وقت 18 آوارہ کتے موجود ہیں، جنہیں عام طور پر سات سے آٹھ روز کے لیے یہاں رکھا جاتا ہے۔
ان کے مطابق صرف وہی کتے یہاں لائے جاتے ہیں جنہیں فوری نگہداشت درکار ہو یا جو پرتشدد رویہ رکھتے ہوں۔
انہوں نے بتایا ’کتوں کو ویکسین دی جاتی ہے، نہلایا جاتا ہے، دن میں دو مرتبہ کھانا اور پانی فراہم کیا جاتا ہے۔‘
تاہم پناہ گاہ کے دورے کے دوران انڈپینڈنٹ اردو نے مشاہدہ کیا کہ بعض کتوں کے جسم پر ٹکس موجود تھے، اگرچہ ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔
نگران کے مطابق یہ کتے حال ہی میں لائے گئے تھے اور کیڑے نکلنے میں وقت لگتا ہے۔
رضوان سرور نے مزید بتایا کہ مئی 2025 تک اس شیلٹر میں 378 کتے لائے گئے، جن میں سے 56 کی نیوٹر/نس بندی کی گئی۔
پناہ گاہ عمومی طور پر صاف ستھری نظر آئی اور وہاں موجود کتے پرتشدد نہیں لگے۔ نگران کے مطابق گرمی کی شدت اور دوپہر کے وقت کے باعث کتے کم متحرک نظر آ رہے تھے جبکہ شام کے وقت وہ زیادہ فعال ہو جاتے ہیں۔
جانوروں کے لیے پانی کی فراہمی سے متعلق سوال پر بتایا گیا کہ شیلٹر میں ہاوزی موجود ہے، تاہم ڈینگی کے خطرے کے باعث اسے ہر وقت استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویڈیو میں دکھائے گئے مناظر سی ڈی اے کے زیرانتظام ’ایس ڈی پی سی سی‘ نامی سہولت میں ریکارڈ کیے گئے تھے، اور ویڈیو ایک مقامی شہری نے بنائی تھی۔
اسلام آباد کے شہریوں کی بڑی تعداد نے سی ڈی اے پر جانوروں کی نگہداشت میں ’شدید غفلت‘ برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس پناہ گاہ کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلایا جائے تاکہ ایسے افراد اس کی نگرانی کریں جو جانوروں کی نگہداشت کا تجربہ رکھتے ہوں۔
اسی تناظر میں سول سوسائٹی کا مؤقف ہے کہ ’مرکز اب بھی کیڑوں (ٹکس) سے بھرا ہوا ہے اور محفوظ نہیں رہا، باوجود اس کے کہ سی ڈی اے اسے محفوظ قرار دے رہا ہے۔‘
این جی او سٹرے ڈاگز کی منتظم وردا غنی نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ پناہ گاہ اب بظاہر صاف نظر آتی ہے، مگر وہاں اکثر صفائی نہیں ہوتی، جانوروں کو مناسب خوراک نہیں دی جاتی اور نہ ہی ان کی باقاعدہ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔
انہوں نے بھی حکومت سے یہی مطالبہ دہرایا کہ پناہ گاہ کو پبلک پرائیویٹ اشتراک سے چلایا جائے تاکہ جانوروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔