افغانستان سے روایتی جنگ بندی نہیں: پاکستان دفتر خارجہ

Share

پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی ویسی روایتی جنگ بندی نہیں جیسی دو متحارب ریاستوں کے درمیان جنگ یا تنازع کے بعد نافذ کی جاتی ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے یہ بات جمعے کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی۔

پاکستان اور افغانستان کی فورسز کے درمیان گذشتہ ماہ ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 19 اکتوبر کو جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جس کے بعد ترکی کے شہر استنبول میں دوبارہ مذاکرات ہوئے اور 30 اکتوبر کو جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ فریقین نے سیزفائر کو برقرار رکھنے اور ایک نگرانی اور تصدیق کا نظام بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان نومبر کے آغاز میں استنبول میں بھی مذاکرات کا دور ہوا تھا۔

دفتر خارجہ میں جمعہ کو ہونے والی بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے ترجمان سے سوال پوچھا کہ کیا افغانستان کے ساتھ سیز فائر باضابطہ ہے، اور افغانستان نے کہا ہے کہ وہ اس حملے کا جواب دے گا جس کا الزام وہ پاکستان پر لگاتا ہے۔ تو کیا کسی حملے کا امکان ہے؟ آپ نے سکیورٹی بڑھائی؟ آپ اس کے لیے تیار ہیں؟

افغانستان نے رواں ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے خوست میں فضائی حملے کیے جن میں 10 افراد مارے گئے، لیکن پاکستان فوج نے اس کی تردید یہ کہتے ہوئے کی کہ ’ہماری پالیسی دہشت گردی کے خلاف ہے، افغان عوام کے خلاف نہیں۔‘

اس کے جواب میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے 25 نومبر کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے افغانستان کے اندر عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان–افغانستان جنگ بندی کا مطلب یہ تھا کہ افغان سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہ پاکستان کے اندر کوئی حملہ نہیں کریں گے۔‘

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس جنگ بندی کے بعد بڑے دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو جنگ بندی برقرار نہیں رہی، کیونکہ اس کا مقصد ٹی ٹی پی، ایف اے کے اور افغان سرزمین استعمال کرنے والے افغان دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں کا رک جانا تھا۔

’لہٰذا اگر افغان شہری حملے کر رہے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے اسلام آباد اور دیگر مقامات پر کیے۔ تو ہم اس جنگ بندی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہو سکتے، اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، یہ روایتی ریاستی جنگ بندی نہیں ہے، بلکہ افغانستان کی جانب سے دہشت گرد حملوں کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘


Share

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

روسی صدر پوتن چار دسمبر کو نئی دہلی پہنچیں گے: کریملن

جمعہ نومبر 28 , 2025
Share کریملن نے جمعہ کو کہا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پوتن وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر چارسے پانچ دسمبر تک انڈیا کا سرکاری دورہ کریں گے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنما روس اور انڈیا کے تعلقات […]

You May Like