بی ایل ایف کا اسسٹنٹ کمشنر تمپ کو اغوا کرنے کا دعوی

Share

بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ترجمان نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں چار جون 2025 کو اسسٹنٹ کمشنر تمپ، محمد حنیف نورزئی کو سرینکن کے مقام پر ان کے اہلِ خانہ، سرکاری محافظوں اور ڈرائیور سمیت تحویل میں لینے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

بی ایل اے نے دعویٰ کیا کہ ’انسانی اور اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر کے اہلِ خانہ کو مکمل تحفظ کے ساتھ رہا کر کے ان کے ڈرائیور اور محافظوں سمیت ان کے گھر روانہ کر دیا گیا ہے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف نورزئی کو تنظیم کی تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘

ترجمان نے کا مزید کہنا تھا کہ ریاستی اداروں نے اسسٹنٹ کمشنر کی بازیابی کے لیے کوئی کارروائی کی تو تمام نتائج کی ذمہ داری مکمل طور پر پاکستانی ریاست کی ہو گی۔

ڈپٹی کمشنر کیچ بشیر احمد خان بڑیچ نے بدھ کو تصدیق کی کہ اسسٹنٹ کمشنر تمپ محمد حنیف نورزئی کو آج صبح کوئٹہ جاتے ہوئے مسلح افراد نے اغوا کر لیا تھا۔

ضلع کیچ کی تحصیل تمپ کا ہیڈ کوارٹر تربت ہے اور یہ ایک سرحدی علاقہ ہے۔ اس علاقے کی سرحد ایران کے ساتھ  لگتی ہے۔  

ڈی سی کیچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اغوا کاروں  کی تعداد سات سے آٹھ تک بتائی اور کہا کہ واقعے کے بعد علاقے کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔

ڈپٹی کمشنر کیچ کے مطابق: ’اسسٹنٹ کمشنر تمپ محمد حنیف ایک انتظامی کام کے سلسلے میں کوئٹہ جا رہے تھے۔ محمد حنیف کے ساتھ ان کی اہلیہ، بچے اور گن مین بھی تھا۔ مسلح افراد نے کچھ  فاصلے پر اہلیہ، بچے اور گم مین کو چھوڑ کر اسسٹنٹ کمشنر محمد حنیف کو سر کاری گاڑی سمیت اپنے ساتھ لے گئے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے اسلام آباد میں ایک اخباری کانفرنس میں حکومتی عزم دہرایا کہ بلوچستان موجودہ سیاسی و عسکری قیادت کی سربراہی میں پرامن ہوگا اور غیرملکی سازشیں ناکام بنا دی جائیں گی۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیچ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

اس علاقے کا شمار بلوچستان کے سب سے زیادہ شورش زدہ  علاقے میں ہوتا ہے، جبکہ کیچ، تربت، تمپ میں بلوچ علیحدگی پسند تنظمیں سرگرم ہیں۔

بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیوں کی جانب سے گذشتہ کئی سالوں  سے مسلح حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ ان حملوں میں زیادہ تر سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

چند دن قبل مسلح افراد نے بلوچستان کے سوراب شہر پر قبضہ کر کے بڑے پیمانے پر سرکاری املاک کو نزر آتش کیا تھا اس واقعے میں اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر ہدایت اللہ بلیدی بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

 گذشتہ منگل کو کوئٹہ کے نواحی علاقے ہنہ اوڑک کے کلی منگلہ میں ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں دو افراد جان سے گئے تھے جبکہ 11 افراد خمی ہو گئے تھے۔

دوسری جانب پاکستان فوج، فرنٹیر کور بلوچستان، لیویز اور پولیس سمیت سکیورٹی ادارے مسلح تنظیموں میں ملوث افراد کے خلاف بلوچستان بھر میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

منگل کو لورالائی ڈویژن میں ایک کارروائی میں تین سے زائد مسلح افراد کو فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا جن سے اسلحہ بھی برآمد ہوا تھا۔

اس سے قبل 21 مئی کو بلوچستان کے شہر خضدار میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) کی ایک بس کو شدت پسندوں نے نشانہ بنایا تھا، جس میں چار بچوں سمیت چھ اموات ہوئیں۔

مارچ میں سبی کے قریب جعفر ایکسپریس ٹرین پر کالعدم بی ایل اے کے حملے میں 26 مسافر جان سے گئے تھے۔

حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کے دوران پانچ سکیورٹی اہلکار جان سے گئے تھے۔

پاکستان فوج کے مطابق یہ حملہ انڈیا کی ایما پر ہوا۔  تاہم نئی دہلی نے حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔


Share

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ثنا یوسف قتل کیس میں گرفتار ملزم کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ

ہفتہ جون 7 , 2025
Share ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کیس میں گرفتار ملزم عمر حیات کو بدھ کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے ملزم کی شناخت پریڈ کی درخواست منظور کرتے ہوئے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ چترال سے تعلق رکھنے والی […]

You May Like