امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو کہا ہے کہ ایران گذشتہ ہفتے امریکی طیاروں کی بمباری سے قبل اپنی جوہری سائٹس سے مواد نہیں نکال پایا تھا۔
اسرائیل کے 13 جون کو ایران کی متعدد فوجی اور جوہری تنصیبات پر حملوں کے نتیجے میں ایران کی عسکری قیادت، جوہری سائنس دانوں اور عام شہریوں کی موت کے بعد آپریشن ’وعدہ صادق سوم‘ کے نام سے تہران نے جوابی حملے کیے۔
اسی دوران امریکہ نے 22 جون کو ایران کی تین ’جوہری تنصیبات‘ کو نشانہ بنایا، جس کے جواب میں تہران نے اگلے روز قطر میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل داغے۔
بعدازاں 12 روز کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں 24 جون کو دونوں ملکوں میں جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا۔
اس کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ امریکی حملوں کے نتیجے میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں، تاہم ایران کا کہنا ہے کہ حملوں سے قبل ہی اس نے اپنے جوہری مراکز کو خالی کر کے افزودہ یورینیم کو منتقل کر دیا تھا۔
جمعرات کو ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکہ کی طرف سے اس کے جوہری مقامات پر حملوں کے دوران ’کچھ بھی اہم‘ نہیں ہوا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے ’غیر معمولی طریقوں سے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور یہ ثابت ہوا کہ انہیں اس مبالغہ آرائی کی ضرورت تھی۔‘
اس کے ردعمل میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ٹروتھ سوشل اکاؤنٹ پر ایرانی کی فردو سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’جوہری سائٹ سے کچھ بھی باہر نہیں لے جایا گیا تھا۔ اس میں بہت زیادہ وقت لگتا، بہت خطرناک اور بہت بھاری اور منتقل کرنے میں مشکل۔‘
امریکی صدر نے کہا کہ حملے سے قبل سائٹ کے باہر بڑی تعداد میں کاروں اور ٹرکوں کی سیٹلائٹ تصاویر میں صرف یہ دکھایا گیا ہے کہ عملہ فردو کو کنکریٹ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس سے قبل جمعرات کو پینٹاگون کی بریفنگ میں بھی ایران پر حملے کو کامیاب قرار دیا گیا، جس کے دوران فوجی حکمت عملی اور ہارڈ ویئر کے بارے میں تفصیلی بیانیہ تو دیا گیا، تاہم اس حوالے سے معلومات مختصر تھیں کہ اس حملے سے ایرانی جوہری پروگرام کو کتنا دھچکا لگا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اگرچہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کتنی جلدی نقصان کو ٹھیک کر سکتا ہے جبکہ اس بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ آیا امریکی حملے سے پہلے ایران اپنی افزودہ یورینیم کو منتقل کرنے میں کامیاب رہا تھا۔
اس حوالے سے پریس بریفنگ کے دوران امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے کہا کہ ان کے خیال میں ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا: ’میں کسی ایسی انٹیلی جنس سے واقف نہیں ہوں جس کا میں نے جائزہ لیا ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ چیزیں وہاں نہیں تھیں جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا، یعنی انہیں منتقل کر دیا گیا۔‘
امریکی فوجی حکام کے مطابق ایران پر امریکی حملوں کے اثرات کو پوری طرح سے سمجھنے میں وقت لگے گا، اور ان کے نقصانات کے بارے میں نئی معلومات حاصل کرنا مشکل ہے۔
پیٹ ہیگستھ نے کہا کہ انہوں نے جمعرات کی صبح کی نیوز کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ابتدائی انٹیلی جنس تشخیص کی بنیاد پر ’بہت زیادہ غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ ہوئی۔‘
انہوں نے کہا: ’اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ فردو میں کیا ہو رہا ہے، تو بہتر ہے کہ آپ وہاں جائیں اور ایک بڑا بیلچہ لے لیں۔‘
امریکی میڈیا نے ایران پر حملے کے بعد لیک ہونے والی ابتدائی رپورٹ کی بنیاد پر کہا تھا کہ ان حملوں سے تہران کا جوہری پروگرام ختم نہیں ہوا بلکہ کچھ ماہ پیچھے چلا گیا ہے۔
ان ہی رپورٹس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے امریکی وزیر دفاع نے کہا: ’ "چاہے یہ جعلی خبریں سی این این، ایم ایس این بی سی یا نیو یارک ٹائمز کی ہوں، ابتدائی رپورٹ کی بہت زیادہ کوریج ہوئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ دستاویز لیک کی گئی تھی کیونکہ کسی کا ایجنڈا تھا کہ وہ صورت حال کو پیچیدہ کرنے کی کوشش کرے اور یہ ظاہر کرے کہ یہ تاریخی حملہ کامیاب نہیں ہوا۔‘
پریس کانفرنس کے دوران جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین نے قطر میں امریکی اڈے پر ایرانی میزائل حملے کی وضاحت کی، جس کا مقصد گفتگو کو سیاسی قیادت اور مجموعی حکمت عملی کے بارے میں سوالات سے امریکی اہلکاروں کی بہادری کی طرف منتقل کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی جانب سے داغے گئے پیٹریاٹ میزائلوں کے راؤنڈ کے دوران پورے فوجی اڈے کے دفاع کے ذمہ دار تقریباً 44 امریکی فوجی وہاں موجود تھے۔