پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی روز کی کشیدگی اور فوجی جھڑپوں کے بعد فائر بندی کی صورت حال پر انڈپینڈنٹ اردو کی 14 مئی 2025 کی لائیو اپ ڈیٹس
صبح 7 بج کر 45 منٹ
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ گذشتہ ہفتے پاکستان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں کے دوران نئی دہلی اور واشنگٹن کے اعلیٰ رہنما رابطے میں تھے، لیکن تجارت پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
انڈین حکومت نے منگل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی اس وجہ سے ہوئی کیونکہ امریکہ نے ممکنہ تجارتی مراعات کی پیشکش کی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ہفتہ وار نیوز کانفرنس کے دوران انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ نئی دہلی اور واشنگٹن کے اعلیٰ رہنما گذشتہ ہفتے پاکستان کے ساتھ انڈین فوج کی شدید جھڑپوں کے دوران رابطے میں تھے، لیکن تجارت پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
رندھیر جیسوال نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور ان کے انڈین ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’تجارت کا معاملہ ان میں سے کسی بھی بات چیت کے دوران سامنے نہیں آیا۔‘
نو مئی کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیزفائر کے بعد ٹرمپ نے پیر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے دونوں ممالک کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ کشیدگی کم کرنے پر راضی ہوں تو وہ تجارت میں مدد کریں گے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول ٹرمپ: ’میں نے کہا کہ ہم آپ لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ تجارت کرنے جا رہے ہیں، چلیں (کشیدگی) کو ختم کرتے ہیں، چلیں (کشیدگی) کو ختم کرتے ہیں، اگر آپ اسے ختم کر دیں گے تو ہم تجارت کریں گے، اگر آپ اسے ختم نہیں کریں گے تو ہم کوئی تجارت نہیں کریں گے۔
’اور اچانک، انہوں (انڈیا اور پاکستان) نے کہا کہ لگتا ہے کہ ہم کشیدگی ختم کرنے والے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے فیصلے کی بہت سی وجوہات تھیں لیکن تجارت ایک بڑی وجہ ہے۔‘
پاکستان کی جانب سے امریکی صدر کے اس دعوے سے متعلق اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے، تاہم گذشتہ روز پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’یہ جنگ بندی کئی دوست ممالک کی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی، جنہوں نے ہم سے رابطہ کر کے کشیدگی کم کرنے کا پیغام پہنچایا۔‘
انڈیا اور پاکستان کی فوجیں گذشتہ ہفتے سے سنگین تصادم میں مصروف تھیں، جب انڈیا نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے اندر اہداف کو نشانہ بنایا۔ نئی دہلی کا کہنا تھا کہ اس نے ان عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا، جو 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 26 سیاحوں کے قتل عام کے ذمہ دار تھے۔ پاکستان نے حملہ آوروں سے کسی بھی تعلق کی تردید کی ہے۔
پاکستان میں انڈیا کے حملوں کے بعد، دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں عالمی رہنماؤں نے دونوں کو تحمل سے کام کرنے کی اپیل کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے نہ صرف جنگ بندی میں ثالثی میں مدد کی بلکہ کشمیر کے تنازع پر بھی ثالثی کی پیشکش کی۔
انڈیا اور پاکستان دونوں کشمیر پر مکمل طور پر دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس کے کچھ حصے دونوں کے زیر انتظام ہیں۔ دونوں ممالک کشمیر پر دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
نئی دہلی نے منگل کو ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔
رندھیر جیسوال نے کہا: ’ہمارا ایک دیرینہ قومی موقف ہے کہ جموں اور کشمیر کے وفاق کے زیر کنٹرول یونین کے علاقے سے متعلق کسی بھی مسئلے کو انڈیا اور پاکستان کو دو طرفہ طور پر حل کرنا چاہیے۔ اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان کی وزارت خارجہ نے منگل کو رات دیر گئے کہا کہ پاکستان اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے عملے کے ایک رکن کو ان کے ’عہدے کے منافی سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے پر ’ناپسندیدہ شخصیت‘ قرار دے کر ملک سے نکال رہا ہے اور انہیں ملک چھوڑنے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے۔
انڈیا اور پاکستان دونوں نے گذشتہ ماہ سے اسلام آباد اور نئی دہلی میں ایک دوسرے کی سفارتی موجودگی کم کردی ہے۔ اب تک بے دخل کیے گئے سفارت کاروں میں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا ہے۔
پاکستان اور انڈیا معمول کے مطابق جاسوسی کے الزامات پر ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک بدر کرتے رہتے ہیں۔