ایران نے اسرائیلی جارحیت کے جواب میں سینکڑوں ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں جن سے اسرائیل میں کم از کم 24 افراد مارے گئے اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ ملک بھر میں شہریوں کو بم شیلٹرز میں پناہ لینا پڑی۔
کچھ ایرانی میزائل وسطی اسرائیل کے رہائشی علاقوں پر بھی گرے، جس سے ہونے والے شدید نقصان کی ویڈیوز اور تصویریں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
جمعرات کو اسرائیل نے کہا کہ بئر السبع شہر میں ایک ہسپتال بھی ایرانی حملے کی زد میں آیا جس سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔
قبل ازیں ایران کا کہنا تھا کہ اس نے اسرائیل کے ایک فوجی انٹیلی جنس سینٹر اور موساد کے ایک آپریشنل پلاننگ سینٹر کو بھی نشانہ بنایا اور یوں اسرائیل کے جدید ترین میزائل دفاعی نظام میں دراڑ ڈال دی۔
اب سوال یہ ہے کہ ایرانی میزائل اسرائیلی دفاعی نظام سے کیسے بچ نکلے؟
اسرائیل کے پاس کم از کم پانچ تہوں والے دفاعی نظام ہیں، جن میں سب سے مشہور آئرن ڈوم ہے، جو دفاع کی سب سے نچلی تہہ ہے۔
آئرن ڈوم
آئرن ڈوم کو اسرائیلی امریکی ڈیفنس کمپنی رفائیل (فرانسیسی رفال سے تعلق نہیں) نے 2011 میں تیار کیا تھا جب کہ امریکہ نے بھی اس میں بھاری سرمایہ کاری کی۔
یہ نظام چار سے لے کر 70 کلومیٹر کے فاصلے سے داغے گئے راکٹوں اور میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق آئرن ڈوم کے ایک انٹرسیپٹر میزائل کی قیمت 30 ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
رفائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نظام کی کامیابی کی شرح 90 فیصد سے زیادہ ہے مگر دیگر ماہرین کے مطابق اصل شرح 80 فیصد کے قریب ہے۔
غزہ کے خلاف جارحیت کے دوران حماس کی جانب سے فائر کیے گئے کئی میزائل اسرائیلی علاقوں پر گرے جنہیں یہ نظام روک نہیں سکا تھا۔
آئرن ڈوم کے بارے میں بات کرتے ہوئے چیٹم ہاؤس میں سکیورٹی سٹڈیز کی سینیئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر میرین میسمر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام شاید اتنا مؤثر نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا ’یہ بلاشبہ ایک مؤثر نظام ہے، مگر کوئی بھی فضائی دفاع مکمل طور پر ناقابل تسخیر نہیں ہوتا۔‘
تھاڈ سسٹم
یہ امریکی نظام ہے جو دراصل Terminal High Altitude Area Defense کا مخفف ہے۔
یہ زیادہ دور سے آنے والے میزائلوں کے خلاف موثر ہے، البتہ قریب سے فائر ہونے والے میزائلوں کے علاوہ دشمن کے جنگی طیاروں کے خلاف کام نہیں کرتا۔
تھاڈ کی رینج 150 سے 200 کلومیٹر ہے۔
داؤد کی غلیل (David’s Sling)
امریکی کمپنی رفائیل کا تیار کردہ یہ نظام 2017 میں فعال ہوا جو بیلسٹک، کروز میزائلوں اور راکٹوں کے علاوہ طیاروں اور ڈرونز کے خلاف موثر ہے۔ اس کی رینج 40 سے لے کر 300 کلومیٹر تک ہے۔
ایرو 2 اور ایرو 3
یہ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کی آخری تہہ ہے جسے خاص طور پر لانگ رینج بیلسٹک میزائل کے توڑ کے لیے بنایا گیا اور زمین کے کرۂ ہوائی سے باہر بھی میزائلوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ان سارے نظاموں کے تین حصے ہوتے ہیں۔ پہلا حصہ ریڈار پر مبنی ہوتا ہے جو آنے والے میزائل کی دور سے نشان دہی کرتا ہے۔
یہ معلومات کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے پاس جاتی ہیں جو میزائل کی نوعیت کے پیش نظر تیسرے حصے یا لانچر کو بتاتا ہے کہ آنے والے میزائل کی منزل کیا ہے اور اگر اس سے آبادی یا تنصیبات کو خطرہ ہو تو پھر اسے راستے میں روکنے کے لیے کون سا میزائل فائر کیا جائے۔
عام طور پر لانچر دو انٹرسیپٹر میزائل فائر کرتا ہے تاکہ ایک خالی بھی چلا جائے تو دوسرا کام کر دے۔
اس کے علاوہ اسرائیل کے پاس لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی موجود ہیں جو ڈرون مار گرا سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ امریکہ بھی مشرق وسطیٰ میں واقع اپنے اڈوں اور خلیج عرب میں تعینات بحری جہازوں سے ایرانی میزائل گرانے میں اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔
ان ساری تہوں کے باوجود ہفتے کو خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک اسرائیلی فوجی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل کا دفاعی نظام 80 سے 90 فیصد تک موثر رہا ہے اور یہ کہ کوئی بھی نظام مکمل نہیں ہوتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ 10 سے 20 فیصد تک ایرانی راکٹ اسرائیلی کے دفاعی حصار کو توڑتے ہوئے ملک میں داخل ہونے اور تباہی مچانے میں کامیاب ہو گئے۔
ایران نے اسرائیلی دفاعی نظام کی تہیں کیسے توڑیں؟
سب سے پہلی بات تو یہ کہ انٹرسیپٹر میزائلوں کا ذخیرہ محدود ہوتا ہے۔
اگر ایک علاقے میں 20 انٹرسیپٹر نصب ہیں اور وہاں 30 میزائل حملہ کر دیں تو ظاہر ہے کہ وہ بچ نکلیں گے۔
ہائپرسونک میزائل
ایران کے پاس ہائپر سونک میزائل ہیں، جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز، یعنی تقریباً چھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ یا 1700 میٹر فی سیکنڈ سے سفر کرتے ہیں۔
یہ رفتار کلاشنکوف کی گولی کی رفتار سے دگنا سے بھی تیز ہے۔
ظاہر ہے کہ ایسے میزائل کو فضا میں نشانہ بنانا انتہائی مشکل کام ہے کیوں کہ یہ دفاعی نظام کو ردعمل دینے کا وقت ہی نہیں دیتے۔
ڈاکٹر میسمر نے بتایا ’ایرانی حکمت عملی کا ایک حصہ بنیادی طور پر یہ ہے کہ وہ اس امید پر بڑی تعداد میں میزائل فائر کرے کہ تمام انٹرسیپٹر میزائل انہیں مار گرانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
’اور یہ وہ چیز ہے جو ہم نے عملاً ہوتے دیکھی۔‘
زگ زیگ سفر
ایران کا فتح -2 میزائل ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل (HGV) لے کر جاتا ہے، جو راکٹ سے الگ ہو کر زگ زیگ رفتار سے آگے بڑھتا ہے اور روایتی میزائل کی طرح سیدھی راہ پر نہیں چلتا۔
یہی وجہ ہے کہ اس کامیابی سے نشانہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
کروز میزائل
کروز میزائل ایندھن لے کر چلتا ہے اور کم بلندی پر سفر کرتا ہے اور راستے میں آنے والی رکاوٹوں سے بچ کر گزر سکتا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
البتہ اس کی رفتار کم ہوتی ہے مگر نشانے تک پہنچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بیلسٹک میزائل کو فائر کیا جائے تو وہ پتھر کی طرح گرتا ہے۔
ایران نے اسرائیل پر ’ہویزہ‘ نامی کروز میزائل فائر کیے ہیں جو 1350 کلومیٹر دور ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
جعلی میزائل
ایک اور حربہ سستے میزائل اور ڈرون استعمال کرنا ہے، جنہیں دفاعی نظام بڑا خطرہ سمجھ کر اس پر میزائل فائر کر دیتا ہے جب کہ اصل میزائل بعد میں پہنچتا ہے۔
’سٹیلتھ‘ میزائل
کچھ میزائلوں میں ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ وہ ریڈار پر نظر نہیں آتے۔
’خودکش‘ ڈرون
ایران کی ڈرون ٹیکنالوجی خاصی ترقی یافتہ ہے اور روس بھی یوکرین میں ایرانی ڈرون استعمال کر رہا ہے۔
ان میں سے ایک شاہد 136 نامی ڈرون ہے جو نسبتاً کم قیمت ہونے کے باوجود بہت موثر ہے۔
اس کے اندر بارودی مواد ہوتا ہے اور یہ اپنے ہدف تک جا کر پھٹ جاتا ہے۔
طول کھنچتی جنگ
جیسے جیسے ایران اسرائیل جنگ طول پکڑ رہی ہے، اعداد کا کھیل بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
اب اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ایران کے پاس فائر کرنے کے لیے کتنے میزائل بچے ہیں اور اسرائیل کے پاس انہیں روکنے کے لیے کتنے انٹرسیپٹر موجود ہیں۔