بابوسر ریلے میں بہہ جانے والی اینکر شبانہ لیاقت کی گاڑی کا ملبہ مل گیا

Share

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں آنے والے شدید برساتی ریلے میں 21 جولائی کو لاپتہ ہونے والی اینکر پرسن شبانہ لیاقت کی گاڑی کا ملبہ پیر کو مل گیا۔

نجی پشتو چینل خیبر کے مطابق اسلام آباد میں ادارے سے وابستہ اینکر پرسن شبانہ لیاقت گلگت بلتستان میں سیلاب کے دوران اپنے شوہر اور تین بچوں سمیت لاپتہ ہو گئی تھیں۔

شبانہ اپنی فیملی کے ہمراہ سیر کے لیے گلگت گئی تھیں اور سکردو سے واپس آتے ہوئے بابوسر ٹاپ پر پہنچ کر ان کے اور ان کے شوہر کے نمبر بند ہو گئے تھے۔

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ سرچ آپریشن کے دوران خیبر ٹی وی کی اینکر شبانہ لیاقت کی گاڑی ملبے سے نکالی گئی۔

ترجمان نے بتایا کہ گاڑی میں کوئی موجود نہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’گاڑی ٹین کا ڈبہ بن کر رہ گئی ہے اور لاپتہ فیملی سمیت دیگر سیاحوں کی تلاش جاری ہے۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان نے پیر کو بتایا تھا کہ شاہراہِ بابو سر ٹاپ پر نجی ٹی وی چینل کی اینکر پرسن سمیت سیلابی ریلوں میں بہہ جانے والے افراد کی تلاش کا کام تیز کر دیا گیا ہے اور سرچ آپریشن میں سراغ رساں کتے اور ڈرونز بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

ترجمان فیض اللہ فراق نے ایک نجی چینل کو بتایا: ’سیلابی ریلوں میں 20 سے 22 گاڑیاں بہہ گئی تھیں، انہی میں ان کی گاڑی بھی شامل تھی۔ ان کا بدقسمت خاندان اسی گاڑی پر سفر کر رہا تھا۔ اس کے بعد سے ریسکیو اینڈ سرچ آپریشن جاری رہا اور اب تک سات لاشیں نکلی جا چکی ہیں، مزید کی تلاش جاری ہے۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ ’شاہراہِ بابو سر پر (شبانہ لیاقت کا) پرس ملا ہے جس میں ان کے کارڈ موجود ہیں۔ ان کے چینل کے نیوز ڈائریکٹر نے ہم سے رابطہ کیا تھا۔ شبانہ لیاقت کے ساتھ ان کے شوہر اور تین بچے بھی تھے۔ انہیں ڈھونڈنے کے لیے سرچ آپریشن میں تیزی لائی گئی ہے۔ جی بی سکاؤٹس، ریسکیو 1122 اور دیامیر پولیس کی انتظامیہ اس میں شریک ہے اور آپریشن جاری ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’شبانہ کا پرس بابوسر سے کوئی 30 کلومیٹر نیچے سار کے مقام پر ملا ہے۔ اس کے آس پاس کے علاقے میں سرچ ٹیمیں تلاش میں مصروف ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا کہ اس علاقے سے ’ایک خاتون کی لاش ملی ہے مگر وہ شناخت کے قابل نہیں ہے، جسے آر ایچ کیو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔‘

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک ویڈیو میں ایک مقامی رضاکار چند بٹوے اور پرس دکھا رہے ہیں۔ ایک بٹوے میں شبانہ لیاقت کا شناختی کارڈ ہے۔ ایک سٹوڈنٹ کارڈ پر ایمل خان سن آف لیاقت علی لکھا ہے۔ 

فیض اللہ نے بتایا کہ ’علاقہ بہت بڑا ہے، جگہ جگہ سیلابی ریلے آئے ہیں، جن سے علاقے کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ مقامی آبادی بھی خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہے مگر وہ اپنے مسائل چھوڑ کر تلاش کی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

ترجمان کے مطابق: ’اب تک اس جگہ سے تین سو کے قریب سیاحوں کو ریسکیو کر کے ان کے علاقوں میں بھیجا جا چکا ہے۔ اس وقت سڑک کی بحالی اور ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے۔‘

ادھر گذشتہ روز کمشنر دیامر استور ڈویژن خورشید عالم نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور سڑکوں، مکانات و زرعی زمینوں کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ڈرون کی مدد سے سروے بھی کیا گیا۔ 

گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ چلاس میں سیلابی ریلے سے اب تک آٹھ افراد جبکہ گلگت بلتستان میں مجموعی طور 10 افراد کی جان جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہراہ بابوسر کو ناران تک بحال کر دیا گیا ہے۔ ’شاہراہ بابوسر کو ون وے ٹریفک کے لیے کھولا گیا ہے۔ مسافر محتاط انداز میں سفر کریں اور غیر ضروری سفر سے اجتناب کرے۔‘

 قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق ملک بھر میں 26 جون سے ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے کم از کم 271  افراد کی جان چکی ہے جبکہ لگ بھگ 700 افراد زخمی بھی ہوئے۔

آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کی تازہ ترین الرٹ کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں پیر سے مون سون بارشوں کا پانچواں سلسلہ شروع ہو گا، جو 31 جولائی تک جاری رہے گا۔


Share

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ایئربلو حادثے کے 15 سال: ’جہاز میں کوئی خرابی نہیں تھی‘

پیر جولائی 28 , 2025
Share آج سے ٹھیک 15 سال قبل، 28 جولائی 2010 کی صبح، ایئر بلیو کی پرواز 202 کراچی سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئی۔ یہ ایک معمول کی اندرونِ ملک پرواز ہونی چاہیے تھی۔ معمول کی سہی، لیکن یہ پرواز معمولی نہیں تھی۔ اپنی منزل سے صرف چند لمحے […]

You May Like