خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں پولیس نے جمعے کو بتایا ہے کہ گیس لیکج دھماکے میں جھلس کر زخمی ہونے والے سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر عباس خان آفریدی ہسپتال میں چل بسے۔
ضلعی پولیس سربراہ (ڈی پی او) ڈاکٹر زاہد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جمعرات کو پنڈی روڈ، عظیم باغ میں واقع عباس آفریدی کے ہجرے میں گیس لیکج سے دھماکہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں وہ جھلس گئے تھے۔
ڈی پی او کے مطابق انہیں کھاریاں کے برن سنٹر منتقل کیا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے چلے گئے۔
عباس آفریدی ایک صنعت کار تھے اور ان کا تعلق کوہاٹ کے ایک سیاسی خاندان سے تھا۔ ان کے والد اور بھائی بھی مختلف سیاسی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
عباس آفریدی 2009 سے 2015 تک آزاد حیثیت میں اس وقت کے قبائلی اضلاع کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2014 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں وہ وزیر برائے صنعت و ٹیکسٹائل رہے تھے۔
2013 میں عباس آفریدی پاکستان میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ٹیکس دینے والی شخصیات میں شامل تھے۔
عباس آفریدی 2021 میں بھی مسلم لیگ ن کی جانب سے سینیٹ کے امیدوار تھے، تاہم 2024 میں انہوں نے مسلم لیگ ن کو خیر آباد کہہ دیا تھا۔
عباس آفریدی کے والد شمیم آفریدی بھی 2018 سے 2024 تک سینیٹ کے رکن رہے اور 2021 میں انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
عباس آفریدی کے بھائی امجد آفریدی پی پی پی خیبر پختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات ہیں اور وہ صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
امجد آفریدی کو گذشتہ روز کوہاٹ پولیس کی جانب سے سابق ضلعی ناظم ملک اسد کے قتل کے ہائی پروفائل کیس میں گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
شمیم آفریدی اپنے بیٹوں ابراہیم آفریدی، امجد آفریدی اور عباس آفریدی کے ہمراہ ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ 2022 میں ان کے گھر پر نا معلوم افراد کی جانب سے دستی بم کا حملہ بھی کیا گیا تھا۔