حال ہی میں ہنزہ کے ایک ہوٹل کا عطا آباد جھیل میں مبینہ طور پر آلودگی پیدا کرنے کا معاملہ ایک غیر ملکی سیاح کی ویڈیو کی وجہ سے وائرل ہوا، لیکن ایسا نہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی اکیلا واقعہ ہو۔
دیکھا جائے تو صرف ہنزہ نہیں، بے ہنگم تعمیرات کی وجہ پچھلے پانچ سات برس سے یہ پورے علاقہ مسائل کا شکار ہے۔
ہم گلگت بلتستان کو سوئٹزر لینڈ سے تشبیہ دیتے نہیں تھکتے، مگر کیا ہم نے کبھی سوئٹزر لینڈ کی مینیجمنٹ دیکھنے کی کوشش کی؟
کیا وہاں بغیر کسی تخصیص کے ہر جگہ ہوٹل، موٹل، ڈھابے، چائے خانے اور گیسٹ ہاؤس بن رہے ہیں؟
اس میں شک نہیں کہ کسی بھی علاقے میں سیاحت کے مواقع بڑھ جائیں تو یہ ایک خوش بختی سمجھی جاتی ہے۔
وہاں روزگار اور معیشت کے مواقع پیدا ہونے کی وجہ سے مقامی برادری کی معاشی حالت بہتر ہو گی اور ایسا ہوتا بھی ہے۔
لیکن اگر ان مواقع کو کسی ترتیب، اصول اور ضابطے کے اندر نہ لایا جائے تو پھر وہی خوشنما فوائد کی قیمت سود کے ساتھ چکانا پڑتی ہے۔
سیاحوں کی بڑھتی تعداد دیکھ کر سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد نے یہاں کا رخ کر لیا اور بھاری رقمیں دے کر دریاؤں، جھیلوں، چشموں اور ندی نالوں اور پانی چشموں کے اطراف کی زمینیں خرید رہے ہیں اور بغیر منظوری یا پلان کے تعمیرات کیے جا رہے ہیں۔
حسبِ سابق انتظامیہ نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ سکردو کی ایک تازہ مثال سے ہم بےلگام تعمیرات کے مضر اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ذمہ داروں کا آنکھ کا بند رکھنا ہے۔
ہرگیسہ نالہ سدپارہ ڈیم سے آنے والے پانی کا واحد ذریعہ ہے اور یہ پینے اور کھیتی باڑی دونوں کے کام آتا ہے۔
اس نالے سے تین بڑے کوہل (پانی کے چینل) سکردو شہر اور اطراف کے لیے پانی فراہم کرتے ہیں۔
ان میں سے ایک کوہل ’الڈینگ‘ کہلاتا ہے جس کا پانی سارے شہر کو پانی کی فراہمی کے لیے بنائی گئی ٹینکیوں کو بھرتا ہے اور پھر اس کے بعد مختلف محلوں سے گزرتا ہے۔
اسی کوہل کے ابتدائی حصے میں عمودی جانب 45 ڈگری بلند ڈھلوانی کھائی پر زینہ دار بنانے گئے ایک ہوٹل کے سیوریج کا پانی کوہل میں گر رہا تھا۔
یوں یہ آلودہ پانی سٹوریج ٹینکوں میں جا رہا تھا اور نلکوں کے ذریعے ہر گھر میں تقسیم ہو رہا تھا۔
محلہ داروں اور عمائدین کی نشان دہی پر وقتی طور ہوٹل کا کام روک دیا گیا ہے اور کچھ حفاظتی اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی، لیکن کیا اسی کو مینیجمنٹ کہتے ہیں؟
اس کا ذکر اس لیے کہ یہی صورت حال ہر ضلعے میں اور تقریباً ہر سیاحتی مقام کو درپیش ہے لیکن ماحولیاتی تحفظ کا نظام سرے سے مفقود ہے۔
بلدیہ اور ضلعی کونسلیں موجود نہیں، کہیں بھی بلڈنگ کوڈز پر عمل درآمد اور مانیٹرنگ کرنے کا نظام موجود نہیں۔
ہر شخص اپنی مرضی سے جب چاہے جہاں چاہے کچھ بھی تعمیر کر دیتا ہے اس کے لیے نہ تو انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی منظوری چاہیے نہ ہی ٹاؤن پلاننگ اتھارٹی اور نہ کسی ذمہ دار محکمے سے پیشگی اجازت بس جیب میں پیسے ہونا شرط ہے۔
اگر سکردو جیسے مرکزی شہر میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو مضافات اور دیہی علاقوں میں جو اندھیر نگری ہے اس کا سوچنا کار عبث ہے۔
سکردو شہر سے مشرق کی طرف کھرمنگ اور خپلو جانے والی روڈ پر چلے جائیں تو آپ دیکھ پائیں گے کہ سڑک سے دریائے سندھ کی طرف کوئی کونہ، کنارہ اور موڑ باقی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی عمارت سرنہ اٹھا رہی ہوں۔
یوں مستقبل میں سڑک سے کوئی اچھا نظارہ ملنے کا امکان ختم ہو رہا ہے۔
اسی طرح کچورا دیکھ لیں کتنا خوبصورت قدرتی حسن سے لبریز گاؤں تھا، اب ان گنت بےترتیب ہوٹلوں اور گاڑیوں کی پارکنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔
کم بیش یہی صورت حال تقریباً ہر ضلعے میں نظر آتی ہے۔ سکردو اور ہنزہ کا تذکرہ اس لیے کہ ان دونوں علاقوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد پہنچتی ہے لہٰذا زیادہ ماحولیاتی مسائل ممکن ہیں۔
ترقی کے مواقع اور کاروباری ذرائع ضرور پیدا کریں مگر قدرتی مناظر اور ماحولیاتی تباہی کی قیمت پر ہرگز نہیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گلگت بلتستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ سیوریج کا ہے۔
گلگت بلتستان کے دو بڑے شہر گلگت اور سکردو سمیت ہنزہ، نگر، خپلو شگر، استور، گاہکوچ اور چلاس میں بھی جو اب تیزی سے قصبوں سے ترقی کر کے شہر بنتے جا رہے ہیں، کہیں بھی سیوریج کا سسٹم متعارف نہیں کیا گیا۔
صورت حال یہ بنی ہوئی ہے کہ ان متذکرہ شہر اور ضلعی صدر مقامات پر تیزی سے ہوٹل، گھر اور دیگر تعمیرات ہو رہی ہیں لیکن ان کے سیوریج کے لیے کچھ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں۔
صرف سکردو شہر کی ایک مثال اس سنگینی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کئی عرصہ پہلے سکردو میں موجود قدرتی چشموں کا پانی نہایت ٹھنڈا اور میٹھا تھا اور اکثر لوگ ان چشموں کے پانی سے لطف اٹھاتے تھے۔
اب یہ حال ہے کہ عالمی ادارۂ صحت اور دیگر اداروں کی رپورٹ کے مطابق ان چشموں میں نہ صرف جراثیمی آلودہ پانی ہے بلکہ اس میں آرسینک اور پارے کی موجودگی کی بھی تصدیق ہو گئی ہے۔
شہر چونکہ غیر ہموار ہے لہٰذا بالائی محلوں کا سیوریج شہر کے پائنتی محلوں میں جا کر ذخیرہ ہو جاتا ہے۔
اگر صورت حال یہی رہی اور کوئی انتظام نہ کیا جائے تو آگے چل کر کیا ہو گا اس خیال سے ابھی جھرجھری آتی ہے۔
دوسری طرف بڑھتی آبادی اور سیاحت کی وجہ سے کوڑا کرکٹ اور فضلہ ہر طرف پھیل رہا ہے۔
ویسٹ مینیجمنٹ جس میں کوڑا اکٹھا کرنے سے لے کر ری سائیکلنگ یا تحلیل کرنے کا میکنزم کہیں بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ڈیزائن کیا جا رہا یے۔
کہنے کو تو ہم ان علاقوں کو سوئٹزر لینڈ کہتے ہوئے نہیں تھکتے، لیکن ہم اپنے ہاتھوں سے اس کی جو درگت بنائے جا رہے ہیں اس پر پوری دنیا ہم پر ہنسے گی اور افسوس کرے گی۔